شَفَق کی سرخی نہیں ، سرخ سیب جیسے گال
اُفق میں آگ لگائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
اُفق کے تارے نہیں ، اُس کو چوم کر جگنو
ترقی پاتے ہی جائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
یہ ماہتاب نہیں ، کرنیں چاند زادی کی
شبابِ شب کو سجائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
یہ مورنی نہیں ، گیسو شرابِ اَقدس کے
ہَوا کو رَقص سکھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
سَحَر کا وَقت نہیں ، نصفِ شب سنہرے ہاتھ
حجاب رُخ سے ہٹائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
یہ قوسِ قُزح نہیں ، اَبرُو شوخ قاتل کے
دَھنک پہ دھاک بٹھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
یہ شاعری نہیں حیرت کی اِنتہا میں لفظ
وَرَق پہ پھیلتے جائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
#شہزادقیس
.