ہے اُس کے کوچے میں صدقے کی اِس قَدَر بھرمار
فقیر گاڑی پہ آئیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
گلی میں شوخ کی دائم مشاعرے کا سماں
شجر بھی شعر سنائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
گلی سے اُس کی گزر کر جو نہ بنے شاعر
تو اُس کو اُردُو پڑھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
گلی میں اُس کی مساوات اَعلیٰ دَرجے کی
صف ایک جیسی بنائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
بہت سے ہیں سَرِ دِہلیز اِتنی مُدّت سے
کہ اُن کو خط یہیں آئیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
جو اُس کے کوچے میں پاؤں پہ چل کے آتے ہیں
وُہ چڑھ کے کاندھوں پہ جائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
بھُنے کبوتروں کی تین سو دُکانیں ہیں
خطوط اِس قَدَر آئیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
#شہزادقیس
.