عقل سے ذات ، ماوَرا اُس کی
کیا لکھے گا ، قلم ثنا اُس کی
ذَرّے ذَرّے کا دائمی حاکم
آگ ، مِٹّی ، پَوَن ، گھٹا اُس کی
تحفے میں اُس کو کچھ بھی دے نہ سکا
جو بھی سوچا تھا ، تھی عطا اُس کی
ہم فقیروں کا کیا ہے دُنیا میں
حتی کہ طاقتِ دُعا اُس کی !
دَھڑکنوں سے لطیف نغمہ تھا
دِل نے سننے نہ دی صدا اُس کی
حُور و جنت تو ’’ ضمنی ‘‘ بات تھی دوست
کاش تم مانگتے رِضا اُس کی
شرم کر کچھ گناہ کرنے میں
قیسؔ بخشش نہ آزما اُس کی !
#شہزادقیس
.